بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بردران اسلام !! انگلینڈ سے بعض احباب نے چند سوالات ارسال فرمائے ان کے جوابات عرض ہىں۔ چونکہ ان سوالات کا تعلق مجتہد،مقلد اور غیرمقلد سے ہے اس لئے پہلے اجتہاد، مجتہد، مقلد اور غیر مقلد کا مطلب سمجھ لینا چاہےے۔۔
حضر ت معاذ ؓ کو جب رسول اﷲ اقدسﷺ نے یمن بھیجا تو اسلامی منشور پر گفتگو ہوئی ۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا اے معاذ! مسائل کا فیصلہ کس طرح کروگے؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کتاب اﷲ شریف سے ۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا اگر کتاب اﷲ شریف میں تو نے وہ مسئلہ نہ پایا تو؟ عرض کیا پھر آپ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر سنت میں بھی تو نے وہ مسئلہ نہ پایا تو؟ عرض کیا پھر میں اجتہاد کروں گا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے حضرت معاذ ؓ کو ایسا جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی جس سے اﷲ کا پاک رسول راضی ہوگیا۔(ابو داود، ترمذی)
ابن قیم ؒ نے اس حدیث کو صحیح بلکہ مشہور فرمایا ہے۔ اس حد یث پاک سے کئی باتیں معلوم ہوئیں۔
(۱)مجتہد اس وقت اجتہاد کرتا ہے جب وہ مسئلہ کو صراحتاً کتاب وسنت میں نہ پائے ۔اگر مسئلہ کتاب وسنت میں صراحتاًمنصوص ہے تو وہاں مجتہد اجتہاد نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ىہ کہتے ہىں کہ مجتہد قرآن وحدیث کے خلاف اجتہاد کرتا ہے وہ نہ صرف اس حدیث کے منکر ہىں بلکہ صحابہ ؓ ومابعد کے مجتہدین کے اجماع کے مخالف ہیں۔ عموماً اجتہادی مسائل تین قسم کے ہوتے ہىں۔(۱) بالکل غیر منصوص مسائل مثلاً کسی کو ریاح خارج ہو نے کا یا پیشاب کے قطرے ہروقت بہنے کا عارضہ ہو یا نکسیر ایسی جاری ہو جائے کہ چار رکعت نماز پڑھنے کی بھی مہلت نہیں ملتی یا کوئی ناسور بہتا رہتا ہے تو ان چاروں مسائل کا حکم صاف الفاظ میں قرآن حدیث میں نہیں، اس لئے مجتہد نے ان مریضوں کو متحاضہ پر قیاس کر لیا جس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔
(۲)مسئلہ بظاہر تو منصوص ہو مگر نصوص میں تعارض ہو اور اس تعارض کے حل کےلئے خدا اوررسول ﷺ کا کوئی فىصلہ نہ ہو۔مثلاً اىک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ قبروں کی زیارت سے منع فرماتے، دوسری حدىث میں ہے کہ اجازت دىتے۔ ان دونوں میں بظاہر تعارض ہے ، مگر آپ ﷺ نے ىہ فرما کر کہ پہلے میں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب اجازت دیتا ہوں اس تعارض کو رفع فرما دیا ۔ پہلے اور پچھلے حکم کی خود صراحت فرمادی تو ىہاں کسی اجتہاد کی ضرورت نہ رہی۔لیکن بہت سے مسائل احادیث میں ایسی موجود ہیں کہ ان احادیث میں بظاہر تعارض ہے مگر خود رسول اکرم ﷺ نے اس تعارض کے بارہ میں کچھ ارشاد نہیں فرمایا تو ىہاں مجتہد کاہی فیصلہ لیا جائے گا۔ مجتہد نے رفتار تشریع سے قاعدہ استخراج کیا کہ ابتدائے اسلام میں سب کچھ مباح تھا، بعد میں بہت سی چیزوں کو حرام قرار دے دیاگیا۔پہلے نماز میں اسلام میں کلام تک مباح تھا پھر اس کو حرام قرار دے دیا گیا۔ اس سے ىہ قاعدہ سامنے آکہ اگر دو احادیث ایسی مل جائیں جن میں سے ایک حدیث میں اىک کلام مباح ہو وہ دوسری میں حرام ہو تو اباحت والی حدیث کو پہلے زمانے کی سمجھا جائے گا اور حرمت والی حدیث کو بعد کے زمانے کے مانا جائے گا۔ مثلاً اىک حدیث میں امام کے پىچھے قرات کرنے کا ذکر ہو، دوسری میں ترک قرات کا، تو قرات ہونٹ اور زبان کی حرکت کو کہتے ہیں اور انصات و خاموشی زبان اور ہونٹ کے سکون کو کہتے ہیں تو قرات والی احادیث کو پہلے زمانہ کی اور خاموشی والی احادیث کو بعد کے زمانہ کی قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح رکوع، سجود بلکہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کی احادیث بھی حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں اور پہلی تکبیر کے ترک رفع یدین کی احادیث آخری مانی جائىں گی اسی طرح آمین بالجہر حرکت ہے اور آہستہ آمىن کہنا سکون ہے اس کو اجتہاد کہتے ہیں مجتہد نے اجتہاد سے آخری زمانہ کی حدیث کا پتے چلا لیا اور مقلد نے مجتہد کی رہنمائی میں اس آخری زمانہ کی حدث پر عمل شروع کر دیا۔
(۳) اجتہاد کی ضرورت حدودشرعیہ کےلئے ہوتی ہے کہ کونسی چىز فرض ہے جس کے رہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے کون سی واجب ہے جس کے رہ جانے سے سجدہ سہووغىرہ لازم آتاہے۔ جو شخص قواعد شرعیہ کا استنباھ کر کے نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کتاب وسنت سے نکال سکے اس کو مجتہد کہتے ہیں۔قرآن میں کبھی ان کو اہل ستنباط ، کبھی فقہا اورکبھی اہل ذکر کہا گیا ہے۔ اور ان کو حکم دیا گیا ہے فاعتبرو ایا اوالی الابصار ۔ اے اصحاب بصیرت قیاس کروں اس لئے ان پر اجتہاد واجب ہے۔
جو شخص خود اجتہاد کی اہليت نہ رکھتا ہو اس پر تقلید واجب ہے کہ وہ فقہاءسے پوچھ کر عمل کر لے ۔ صحابہ تابعین ؒ میں يہ دو ہی قسم کے لوگ تھے۔ حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی ؒ فرماتے ہىں کہ تمان صحابہؓ اىک ہی مرتبہ میں نہ تھے ان میں سے بعض مجتہد تھے اور بعض مقلد کىونکہ قرآن پاک میں بعض کو اہل استنباط(مجتہد) قرار دیا ہے اور دوسروں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اسی کو تقلید کہتے ہیں۔
جو شخص نہ خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو اور نہ ہی کسی مجتہد کی تقلید کرتا ہو اسے غیر مقلد کہتے ہیں۔ صحابہؓ تابعینؒ ، تبع تابعین اور آئمہ محدثین ؒ می سے اىک بھى شخص غیر مقلد نہ تھا۔ جس کے بارہ میں صرف اىک حوالہ جو مستند ہ اور صاف اوصریح ہوکہ فلاں صحابی یا فلاں محدث نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے اور نہ ہی مجتہد کی تقلید کرتے تھے بلکہ غیر مقلد تھے ایسا صاف اوصریح حوالہ قیامت تک پیس نہیں کیا جا سکتا۔ ىہ بھی یا د رہے کہ ىہ فرقہ نہ مکہ میں پیدا ہوا اورنہ مدینہ میں اور نہ ہی عرب کے کسی اور شہر میں۔ ىہ فرق انگریز کے دور حکومت میں پید اہوا اور ىہیں سے دوسرے ملکوں میں گیا۔ جب اجتہاد، مجتہد، مقلد اور غیرمقلد کا معنی ذہن نشین ہوگیا تو اب مسئلہ بھی سمجھ لو کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد پر اجتہاد کرنا واجب ہے، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعریز(سزا) واجب ہے۔
سوال نمبر1
جو لوگ علمی طور پر مجتہد نہ ہوں اورکسی مجتہد کے مقلد نہ بھی ہوں او روہ کتب حد یث کے اردو مترجم کے مطالعہ کو تحقیق سمجھتے ہوں کیا انہیں اپنی اس ناقص تحقیق پر عمل کرنا جائز ہے یا ان پر ضروری ہے کہ وہ حدیث کے کسی پختہ علم رکھنے والی عالم کی پیروی کریں اور اس پر اعتماد کریں کہ یہ دلیل کے مطابق بتا رہا ہے ےہ پیروی بہتر ہے یا بلا علم وفن وعویٰ تحقیق؟
الجواب
اسلام میں تحقیق کا حق رسول اﷲ ﷺ کے بعد صرف مجتہد کو ہے۔ الذین یستنبطونہ منھم میں تین باتوں کی تحقیق ضروری ہے۔
(۱)۔ وہ دلىل مثلاً حدیث ثابت اور صحیح ہو۔ (۲)۔ اس حدیث سے جو سمجھ میں آیا ہے وہ ہی مراد رسول اﷲ ﷺ ہو، وہ مطلب مراد رسول کے خلا ف نہ ہو۔ (۳)۔اگر اس دلىل کے معارض کوئی اور حدیث ہو تو اس تعارض کو فع کیا جائے۔ یا درہے محدثین نے ساری عمر صرف پہلی بات کی تحقیق میں صرف فرمادی ہے۔ مرادرسول کے سمجھنے کو اور فع تعارض کو مجتہدین کے حوالے کر دیا ہے البتہ مجتہدین کی تحقیق کامل ہوتی ہے۔ وہ ثبوت، دلالت اور فع تعارض تینوں کی پوری پوری تحقیق کرتے ہیں اسی لئے ان آخری دو باتوں میں خود محدثین بھی مجتہدین کی ہی تقلید کرتے ہیں۔ چنانچہ محدثین کا ذکر چار ہی قسم کی کتابوں میں ملتا ہے طبقات حنفىہ، طبقات مالکی، طبقات شافعیہ، طبقات حنابلہ۔ طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب محدثین کے حالات میں آج تک کسی مسلمہ مورخ ومحدث نے نہیں لکھی۔ جب صحابہ ؓ تابعین، محدثین، مفسرین سب نے مجتہدین کی تحقیق پر اعتماد کیا ان میں سے اکثر کی مادری زبان بھی عربی تھی لیکن پھر بھی مجتہدین کے مقلد رہے تو آج کسی شخص کا جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اپنی ناقص وفہم اور ناقص علم پر اعتماد کرنا اور اس کو تحقیق کا نام دینا ہرگز درست نہیں ہے ىہ صحابہ کرام ؓ سے لے کر آج تک کے مت کے متواتر ترمال کے خلاف ہے اور کتاب وسنت کے بھی خلاف ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر تم خود نہیں جانتے تو یاد کھنے والے سے پوچھ کر عمل کرلو۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو يہ نہیں فرمایا تھا کہ سارے اہل یمن کی مادری زبان عربی ہے اس لئے وہ سب اجتہاد کر لیا کریں۔ بلکہ تمام اہل یمن حضرت معاذ ؓ کی ہی تقلید شخصی کرتے تھے ۔نااہل آدمی کی بات کو تحقیق کہنا بھی رسول اﷲ ﷺ کی مخالفت ہے۔آپﷺ فرماتے ہیں جب کوئی کام نااہل کے سپرد کیا جائے تو سمجھو قیامت ٹوٹ پڑی او کما قال (بخاری) ان نااہل لوگوں نے ہی آجکل دین میں قیامت کے فتنے برپا کر رکھے ہیں اسلئے غیر مجتہد پر اجتہادی مسائل میں مجتہد کی تقلید واجب ہے۔
سوال نمبر2
جو لوگ کتب وحدیث و تفسیر کے اردو تراجم کے مطالعہ سے مرزائی ہو چکے ہیں انہیں اس ناقص تحقیق پر قیامت کے دن کوئی رعایت ملے گی یا نہیں؟ کیا انہیں اپنی اس درجہ کی تحقیق پر بھروسہ کر کے اپنا عقیدہ بنانا جائز تھا یا نہیں؟ یا انہیں کسی پختہ عالم کی پیروی کرنی چاہىے تھی آزاد روی سے بچنا چاہىے تھا۔
الجواب
پہلے گز ر چکا ہے کہ نہ اہل کے بات کو تحقیق نہیں کہتے بلکہ ىہ الحاد ہے ۔اگر اس نے اردو ترجم پڑھ کر اپنا عقیدہ ضررویات دین میں سے کسی کے مقابل بنا لیا تو وہ پکا کافر ہے۔ اگر اردو تراجم پڑھ کر ضروریات اہل سنت سی کسی اىک بات سے بھی پھر گیا تو وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے اور اردو تراجم اور خودرائی سے نااہل ہو کر مجتہدسے منازعت کی تو ىہ بھی بالکل حرام ہے ۔آپ ﷺ بیعت کے وقت ىہ پختہ عہد لىتے تھے ان لا تنازع الا مر اہلھا۔ ىہ تو منازعت قطعاً حرام ہے ۔ جو لوگ اکابر سے باغی ہو کر قادیانی یا نیّچری یا منکری فقہ بن گئے ہےں وہ جس جس درجہ میں باغی ہوئے ہیں ان کو قیامت میں کوئی رعایت نہیں ملے گی ان پر لازم ہے کہ مادرپدر آزادی چھوڑ کر اىسے مجتہد کی تقلید کریں جس کا مجتہد ہونا باجماع امت میں ثابت ہو اور جس کا مذہب اس علاقہ میں درساً وافتاً وعملاً متواتر ہو۔
سوال نمبر3
اگر کوئی شخص علم نہیں رکھتا اوراپنے کمزور علم پر بھروسہ بھی نہیں کرتا کسی پختہ علم والے کی پیروی کر لیتا ہے، عالم دلىل دے تو اس دلیل کی پڑتا ل اور تحقیق کرنے کی اس میں قابلیت نہیں اب اس شخص کے لئے اہل علم کی تقلید کرنا جائز ہے کہ بدوں مطالبہ دلیل ان سے مسئلہ پوچھ کر ان پر عمل کر لیا کرے۔
الجواب
نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے ۔کتب حدیث مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق، کتاب الآثار، تہذیب الآثار میں صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ کے ہزارہا فتاوی ہیں کہ مجتہد مفتی نے اپنے فتوے کے ساتھ کوئی آیت یا حدیث بطور دلیل بیان نہیں فرمائی صرف مسئلہ کا حکم بلا ذکر دلیل بیان کر دی اور اس دور کے کروڑوں عوام بلا مطالبہ دلیل ان فتاوی پر عمل کرتے رہے اسی کا نام تقلید ہے جوخیر القرون میں تواترکے ساتھ ثابت ہے حالانکہ ان میں لاکھوں آدمی تھے جن کی مادری زبان عربی تھی لیکن وہ بھی مقلد ہی رہے۔ اسی طرح آئمہ اربعہ ؒ نے جو فقہی فتاوی عوام کےلئے مرتب کروائے ان لاکھوں مسائل کے ساتھ کوئی آیت یا حدیث بطور دلیل مرتب نہ کروائی بلکہ سب فتاوی بلا ذکر دلیل مرتب کروائے اور ان فتاوی پر صدیوں سے ہزاروں محدثین، ہزاروں مفسرین، ہزاروں سلاطین، ہزاروں اولیاءاﷲ اور کرڑوہا عوام بلا مطابلہ دلیل عمل کرتے چلے آ رہے ہیں اورىہ تقلید امت میں عملاً وفتاءمتواتر ہے۔ ”ہم شیران جہاں بستہ اىں سلسلہ اندر وباہ چہ جنباند کہ بگسلا ایں سلسلہ ار۔“ یعنی دینا بھر کے بڑے بڑے شیر اسی تقلید کے سلسلہ میں مربوط ہیں کوئی لومڑی اس سلسلہ کو کےسے توڑ سکتی ہے۔
سوال نمبر4
آج کل جو عوام اہل حدیث کہلاتے ہىں وہ کسی حدىث کی تحقیق او پڑتال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے محض اپنے مولویوں کہ کہنے پر وہ کسی حدیث کو قبول یا رد کرت ہىں تو وہ اگر کہتے ہیں کہ ہم اپنے مولویوں کی پیروی نہیں کرتے قرآن وحدیث پر تحقیق کے ساتھ عمل کرتے ہیں تو کیا وہ جھوٹ نہیں بول رہے ہیں؟ کیا انہیں اس جھوٹ بولنے پر قیامت کے دن کوئی مواخذہ تو نہ ہوگا؟ یا جھوٹ جھوٹ ہے گو وہ کسی درجے میں ہو؟
الجواب
اہل حدحث کا لفظ قرآن وحدیث میں کہیں نہیں ہے، البتہ کتب قوم میں اہل حدیث محدث کو کہا جاتا ہے جو سند کی مجتہد انہ پڑتال کر سکے، جس میں محدث کی شرائط نہ ہوں اس کو اہل حدیث کہنا ہرگز جائز نہیں جیسے مرزا کادیانی میں نہ مہدی کی شرائط، نہ مسح علیہ السلام کی ، نہ مجدد کی ، نہ مسلمان کی تو اس پر ان میں سے کوئی لفظ استعمال کرنا حرام ہے۔ یقینا اپنے مولویوں کی تقلید کرتے ہىں جو مولوی اجتہاد کی شرائط سے کورے بلکہ اجتہاد کی تعریف سے بھی جاہل ہیں لىکن اعجوبہ ہے کہ ان کا مولوی مجتہد کی تعریف سے بھی ناواقف ہے مگر ےہ فرقہ اپنے مولوی کو نہ صرف نبی بلکہ عین محمد رسول اﷲﷺ مانتا ہے چنانچہ جو ان کے مولوی کی بات نہ مانے ىہ کبھی نہیں کہتے کہ فلاں شخص نے ہمارے مولوی کی بات نہ مانی ، ىہ کہتے ہیں کہ وہ محمدی نہیں کیونکہ اس نے محمد رسول اﷲ ﷺ کی بات نہیں مانی اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے مگر یہی جھوٹ اس فرقے کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے اس جھوٹ پر یقینا قیامت کو مواخذہ ہوگا۔
سوال نمبر5
آج کل کے اہل حدیث عوام جو نہ محقق ہیں نہ مقلد، ان کےلئے بہتر راہ پنے موجودہ دور کے مولویوں کی پیروی ہے یا علماءسلف صالحین کی پیروی؟ بہتر راہ کون سی ہے اگر موجودہ دور کے مولویوں کی پیروی کرنی ہو تو برطانیہ میں اہل حدیث اپنے کسی مولوی کی پیروی کریں تاکہ اسے امام اہل حدیث کہا جاسکے؟
الجواب
ایسے لوگوں کےلئے بہترہی نہیں بلکہ واجب ہے کہ ایسی مجتہد کی تقلید کریں جس کا مجتہد ہونا اجماع امت سے ثابت ہو اور اس کے اصول وفروع مدون ومرتب ہونے کے ساتھ ساتھ عملاً متواتر بھی ہوں۔ ایسے مجتہد کو چھوڑ کر اس مولوی کی پیروی کرنا جس کا نہ مجتہدر ہنا کسی دلیل شرعی سے ثابت ، نہ اس کے اصول وفروع مدون نہ متواتر، اس حدیث کا مصداق بنتا ہے جیساکہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ لوگ جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنالیں گے وہ بغیرعلم کے فتویٰ دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے (بخاری) برطانیہ میں صہیب صاحب کو اس قسم کا امام بنایا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر6
کیا قرون ثلاثہ جن کے خیر ہونے کی حدیث میں خبرد ی گئی ہے ان میں مسلمانوں کا کوئی گروہ ایسا گروہ رہا ہے جو نہ علماء ہوں نہ مقلدین اور وہ اہل حدیث کہلاتے ہوں، اگر ہے تو ان کے دو حوالے دىجئے۔ اگر اس دور میں کوئی اىسے مسلمان نہ تھے جو مجتہد ہوں نہ مقلد اور اہل حدیث کے نام سے پوری قلمرو اسلامی میں کہیں اس نام کا فرقہ پایا نہیں گیا تو آج جو فرقہ اس تعارف سے موجود ہے وہ مسلمانوں میں ایک نیا اوربدعتی فرقہ شمار ہوگا یا نہیں؟
الجواب
خیر قرون تو کجا کسی اسلامی سلطنت میں اس فرقہ کا نام ونشان نہیں ملتا۔ اس فرقہ کے بانیوں نے ملکہ وکٹورىہ کی سلور جوبلی پر جو سپاس نامہ پیش کیا اس کے الفاظ ہے ہیں ” بحضور فیض گنجور کوئین ملکہ کٹورىہ دی گریٹ قیصر ہند بارک اﷲ فی سطلنتھا“ ہم ممبران گروہ اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے جو حضور والا کی خدمت عالی میں جشن جوبلی کی دلی مسرت سے مبارک باد عرض کرتے ہىں۔اس سلطنت میں جو نعت مذہبی آزادی (غیر مقلدیت) کی حاصل ہے اس سے ىہ گروہ اپنا خاص نصیبہ اٹھا رہا ہے وہ خصوصیت ىہ ہے کہ ىہ مذہبی آزادی اس گروہ کا خاص اسی سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے ان کو اور بھی اسلامی سلطنتوں میں بھی ىہ آزادی حاصل ہے۔
ایسی خصوصیت سے یقین ہو سکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام واستحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان دل سے مبارک باد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں۔ (اشاعت السنة ص206ج9) پوری تفصیل کتاب اہل حدیث اور انگریز میں ملاحظہ فرمائیں۔
انگریز کے دور سے پہلے ان کا ترجمہ قرآن نہ ترجمہ حدیث، نہ کوئی مسجد نہ مدرسہ اور نہ مقبرہ۔ ان کے بدعتی ہونے میں ذرہ بھر شک نہیں۔ امام طحطاوی ؒ فرماتے ہیں۔ من کان خارجا من ھذہ المذاہب لاربعة فہو من اہل البدعة والنار (طحطاوی علی الدر) یعنی جو شخص مذاہب اربعہ سے خارج ہو(نہ حنفی، نہ مالکی، نہ شافعی،نہ حنبلی) وہ بدعتی اور ذوزخی ہے۔
سوال نمبر7
موجودہ دور کے غیر مقلدین سے ہم اہل سنت کا اختلاف اصولی اختلاف ہے یا فروعی۔ اور دىگر مذاہب کے مقلدین کا آپس میں اصولی اختلاف ہے یا فروعی۔ ان دونوں میں کیا فرق ہو گا؟ مجتہد کی خطائیں او عامی کی غلطی میں کیا فرق ہے ؟ عامی اپنی مرضی سے کوئی مسئلہ اختیار کرے تو کیا اسے معافی مل سکے گی؟
الجواب
غیر مقلدین جو صحابہؓ کو معیار حق نہیں مانتے مطلق فقہ کے منکر اورمخالف ہیں، ائمہ مجتہدین کو دین کے ٹکرے کرنے والے بتاتے ہیں، تصوف اورکرامات کو شرک قرارد دیتے ہیں، اجماع کو بھی نہیں مانتے ان سے اہل سنت کا اختلاف اصولی ہے اور دوسری بدعتی فرقوں کی طرح وہ اہل سنت سے خارج ہیں۔ ائمہ اربعہ ؒ کے مقلدین اصول میں متفق ہیں صرف فروع میں اختلاف ہے، اس لئے ىہ چاروں اہل سنت والجماعت ہیں ان دونوں میں ىہی فرق ہے کہ مقلدین مذاہب اربعہ اہل سنت میں داخل ہیں۔ اور غیرمقلدین اہل سنت سے خارج ہیں۔ مجتہد کا اجتہاد اگر صواب ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر خطا بھی ہو جائے تو اﷲتعالیٰ اىک اجر عطا فرماتے ہیں (متفق علىہ)گویا مجتہد اگرچہ معصوم نہیں مگر مطعون بھی نہیں وہ ہر حال میں ماجور ہے اس لئے مقلد کو بھی کوئی پریشانی نہیں اگر بالفرض اس کے مجتہد سے خطا بھی ہوئی تو عمل یقینا مقبول ہے اور اىک اجر بھی یقینی ہے اور دوسرے اجر کی خدا کی رحمت سے امید ہے۔ اس کے برعکس اگر نااہل عامی (غیر مقلد) اگر رائے لگائے تو اس کے صواب پر بھی گناہ ہے او ر وہ شخص گناہ گار ہے اس کا عمل مقبول نہیں ہے۔ (نووی شرح مسلم)
سوال نمبر 8
صحابہ کرام ؓمیں کیا کوئی ایسے حضرات تھے جو رکوع کے وقت کبھی رفع یدین نہ کرتے تھے؟ جو صحابہ ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے کیا وہ ان پہلوں کو گمراہ سمجھتے تھے یا محروم الثواب سمجھتے تھے یا ان کہ اس ترک رفع کو وسعت عمل پر محمول کر تے تھے حقیقت جو بھی ہو حوالہ پیش کر کے سائل کو مطمئن کریں؟
الجواب
تمام اکابر صحابہ کرام ؓ مہاجرین و انصار سے پہلی تکبیر کے بعد کسی جگہ رفع یدین کرنا ثابت نہیں مکہ مکرمہ میں بھی دور صحابہ تابعین ؒ میں ترک رفع یدین عملاً متواتر تھی جیسا کہ میمون مکی تابعی کے قول سے ظاہر ہے (ابو داود)
مدینہ منورہ میں بھی خیر القرون میں عملی تواتر ترک رفع یدین ہی متواتر تھا جیساکہ امام مالک ؒ کے فرمان سے ظاہر ہے (المدونة الکبریٰ) کوفہ میں بھی صحابہؓ و تابعین ؒ میں سنداً و تعاملاً ترک رفع یدین ہی متواتر تھا۔
جیسا کہ امام ابرتاہیم نخعی ؒ کے ارشاد سے واضح ہے (مسند امام اعظم)البتہ بصرہ میں چند لوگ رکوع وسجود کے وقت رفع یدین کرتے تھے جیسا کہ امام حسن بصری ؒ نے فرمایا ( ابو داود) درو صحابہ ؓ و تابعین ؒ میں کسی نے ترک رفع یدین کو گمراہی یا ثواب سے محرومی نہیں فرمایا البتہ رفع یدین کو اوپر اور اجنسی فعل سمجھا جاتا تھا جیسا کہ میمون مکی نے ابن الزبیرؓ کے بارہ میں اور وھیب بن خالد نے عبد اﷲ بن طاوس تیمی کے بارہ میں فرمایا (ابوداود) اور قاضی محارب بن دثار نے ابن عمرؓ سے پوچھا(مسند احمد)
سوال نمبر9
جو لوگ امام کے پىچھے فاتحہ پڑھنے کو فرض نہ جانتے تھے کیاوہ صحابہ کرام ؓ جو امام کے پىچھے فاتحہ پڑھتے تھے ان پہلے صحابہ کو گمراہ سمجھتے تھے یا اسے اىک اجتہادی مسئلہ سمجھتے تھے؟
الجواب
آیت ................ کے نزول کے بعد جمہور صحابہ ؓ امام کے پىچھے قرآت نہیں کرتے تھے اور ىہ تو کسی اىک صحابی سے بھی بسند صحیح ثابت نہیں کہ اس نے کہا ہو کہ جو امام کے پےچھے فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز باطل اوبیکار ہے جیسا کہ خود آنحضرت سے بھی اىک بھی صحیح و صریح حدیث ثابت نہیں اس لئے امام کے پىچھے قرآت نہ کرنے والوں کو نہ کسی نے گمراہ کیا نہ بے نماز ۔ بعض صحابہ کرام ؓ جو سری نمازوں میں بعض ائمہ کرام کی اقتداءمیں قرآت کرتے تھے ىہ ان کا اجتہاد تھا جس پر امام ابراہیم نخعی نے شدید نکیر فرمائی ۔
سوال نمبر10
جن مسائل میں صحابہ میں عملی اختلاف رہا۔ ان میں سے کسی جانب کو ہم گمراہی قرار دے سکتے ہیں یا سب کو اجتہاد اً حق پر ماننا ضرروی ہے۔ اجتہاد کی دونوں راہیں صواب و خطا کیا حق نہ سمجھی جائیں گی ؟ جن میں سے کوئی فریق مستوجب سزانہ ہوگا ؟
الجواب
صحابہ کرام ؓ میں اختلاف تھا وہ اجتہادی اختلا ف تھاجس میں جو صواب پر تھے ان کو دو اجر اوراگر کسی سے خطا ءہوئی تو اىک اجر کا حق دار تھا ہر دو فریق کا عمل یقینا مقبول ہے تو گمراہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ چار آدمی ایسی جگہ میں جہاں قبلے کا پتہ نہیں چل رہا سب نے تحری کر کے اىک اىک طرف نماز پڑھ لی۔ اگر چہ ان میں سے صرف اىک ہی شخص کی نماز یقینا قبلے کی طرف پڑھی گئی اور تین اشخاص کی نماز یقینا غیر قبلہ کی طر ف پڑھی گئی مگر اﷲتعالیٰ نے اپنی رحمت واسعہ سے ان کی نماز کو بھی قبول فرما لیا۔ان میں سے کسی اىک کو بھی گمراہ نہیں کہا جاسکتا۔ صحابہ ؓ کے بعد ائمہ اربعہؒ کا اختلاف بھی اسی قسم کا ہے جہاں جس امام کا مسلک عملاً متواتر ہوگا اسی پر عمل واجب ہے متواتر عمل کے خلاف فتنہ اٹھانا خدا اور رسول ﷺ کو ہرگز پسند نہیں۔
سوال نمبر11
صحابہ کرام ؓ کا اگر کسی مسئلے پر اجماع ہو جائے جیسا کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں طلاق ثلاثہ پر ہوا تو اس اجماع کا ماننا امت کےلئے ضروری ہے یا نہیں؟ اگر نہيں تو سب صحابہ کے خلاف جو راہ عمل اختیار کی جائے وہ یتبع غیرسبیل المومنین میں شمارہو گی یا نہیں؟ اگر اس پر تمام صحابہؓ کا اجماع نہیں ہوا تھا تو جس صحابی نے اس کسے اختلاف کیا ہو اس کا نام مع حوالہ بتلا دیں بہت مہربانی ہو گی؟
الجواب
تین طلاق جب بیوی کو دی جائیں تو تین ہی ہوتی ہیں خوا کہے تجھے تین طلاق یا کہے تجھے پہلی طلاق، دوسری طلاق، تیسری طلاق۔ اس دور فاروقی میں صحابہ کرام ؓ کااجماع ہوا اور ان کے بعد بھی ائمہ اربعہ ؒ کا اسی پر اجماع رہا۔ جو شخص اس کے خلاف فتویٰ دیتا ہے وہ سبیل مومنین سے یقینا کٹ چکا ہے کسی اىک بھی صحابیؓ سے اس کا خلاف ثابت نہیں۔
سوال نمبر12
سعودی عرب کے جو مشائخ مسائل غیر منصوصہ میں ائمہ اربعہؒ سے کسی کی پیروی کو واجب قرار دىتے ہیں وہ اپنے اس فىصلے میں حق پر ہىں یا گمراہ ہیں؟ اگرحق پر نہیں تو پاکستان و ہندوستان کی جماعت اہلحدیث نے سعودی عرب کے علماءکو ان کی گمراہی پر کبھی ٹوکا اور روکا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو محض مالی امداد حاصل کرنے کےلئے ىہ عمل مداہنت شمار نہیں ہو گا؟
الجواب
الھدیتہ السنیہ مولفہ علامہ سلیمان بن سحمان نجدی کا اردو ترجمہ بنام تحفہ وہابیہ مولانا اسماعیل غزنوی اہلحدیث نے امرتسر سے شائع کیا تھا ا سکے ص61پر اىک عنوان ہے ”ہمارا مسلک“ حضرت امام عبدا ﷲ بن شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ؒ فرماتے ہیں“ ہم فروعی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے طریقہ رپر ہیں چونکہ ائمہ اربعہ ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل ؒ کا طریقہ منضبط ہے ا سلئے ہم ان کے کسی مقلد پر انکار نہیں کرتے ان کے سوا چونکہ اور لوگوں مثلاً روافض، زیدىہ، امامىہ وغیرہ کے مذاہب منضبط نہیں اس لئے ہم ان کو تسلىم کرتے۔ ہم لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ چاروں ائمہ مىں سے کسی اىک کی تقلید کرىں ( ص61) اس کے برعکس غیر مقلدین کے نردیک تقلید ائمہ نہ صرف بدعت بلکہ شرک بھی ہے لیکن ان کا ىہ فتوی صرف پاک وہند ہے سعودی عرب کے مشائخ ان کی مالی امداد کرتے ہیں اس لئے ان پر ىہ فتویٰ نہیں لگاتے حالانکہ اصولی طورپر ان کو روکنا ٹوکنا زیادہ ضروری ہے۔ اىک شخص بازار میں گالیاں بکے وہ بھی گنہگار ہے لیکن جو خانہ خدا مسجد میں کھڑا ہو کر گالیاں بکتا ہے وہ یقینا بڑا گنہگار ہے۔ اسی طرح جب شرک وبدعت عام مقامات پر بھی بہت بڑا گناہ ہے تو حرمین شریفین میں بدعت و شرک تو بہت ہی بڑا گناہ ہے ان کو پہلے روکنا چاہىے مگر دنیاوی فائدے کےلئے ىہ مداہنت اورحق پوشی وقعتہً بہت بڑا گنا ہ ہے۔
سوال نمبر13
خانہ کعبہ اورمسجد نبوی میں رمضان میں بیس رکعات تراویح کی جماعت کب سے چلی آرہی ہے اس سن کی نشاندہی کر دیں؟ نیز بتائیں کہ ائمہ حرمین شریفین کا ىہ عمل غلط ہے یا صحیح؟اسلام کی چودہ صدیوں میں ان دونوں مسجدوں میں کیا کبھی صرف آٹھ رکعات تراویح کی جماعت ہوئی اس سن کی نشاندہی فرمائیں اور حوالہ دیں کرم فرمائی ہوگی؟
الجواب
خلفىہ راشد حضرت فاروق اعظم نے14ھ میں لوگوں کو نماز تراویح باجماعت پر جمع فرمایا (ابن اثیر ج2ص124) محدثین او فقہا کا اجماع ہے کہ استقرار بیس رکعات تراویح باجماعت پر ہی ہوا۔اس کے بعد1290ھ کے دنیا بھر میں اىک مسجدبھی نہ تھی جس میں بیس رکعت تراویح سے کم کی جماعت ہوتی ہو۔1290ھ میں ہندوستان میں اىک غیرمقلد عالم مولانا محمد حسین بٹالوی نے آٹھ رکعت تروایح کا فتویٰ دی اور امت کو اىک نئے اختلاف سے روشناس کروایا۔ مگر اس اختلاف کی پرورش ہندوستان میں ہی انگریزی حکومت کی سرپرستی میں ہوئی ۔ مرکزاسلام حرمیں شریفین میں آج تک بیس تراویح ہی باجماعت پڑھی جاتی ہىں۔ائمہ حرمین شریفین کی پشت پر خلافت راشدہ سے آج تک کا عملی توارث موجود ہے اس لئے ان کا ىہ عمل غلط کےسے ہوسکتاہے خلافت راشدہ سے لےکر آج1414ھ تک کسی اىک رمضان کی کسی اىک رات میں بھی آٹھ تراویح کی جماعت نہیں ہوئی۔
سوال نمبر14
صحیح بخاری اورجامع ترمذی میں کیا صرف احادیث نبوىہ ہی ہیں یا صحابہ اور تابعین ؒ کے اقوال بھی ان میں دئىے گئے ہیں اب اگر کوئی اہلحدیث ىہ کہتا ہے کہ صرف اﷲاوراس کے رسول ﷺ کی بات مانو اورکسی کی نہیں تو کیا اوہ ان محدثین کے طرىقے کے خلاف نہیں چلا جو صحابہ ؓ کی احادیث کو ساتھ لے کے چلے ہیں؟
الجواب
اہل سنت والجماعت بالترتیب چاردلائل ماتے ہیں کتاب اﷲ، سنت رسول اﷲ ﷺ اجماع امت اور قیاس۔ محدثین اہل سنت نے جس طرح صحابہ کے اجماعی امت اور قیاس۔ محدثین اہل سنت نے جس طرح صحابہ کرام ؓ سے مروی احادیث کو کتب حدیث میں جمع فرمایا اسی طرح صحابہؓ کے اجماعی فیصلوں اور فقہی فتاویٰ کو بھی جمع فرمایا۔ امام بخاری ؒ کے استاد ابوکر بن ابی شیبہ ؒ اور عبد الرزاق ؒ نے ہزارہافقہی فتاویٰ صحابہؓ و تابعینؒ کے سینکڑوں فتاوی جمع فرمائے ۔ اور امام ترمذیؒ نے توہر باب میں فقہی مذاہب نقل فرمائے ہیں۔ غیر مقلدین کا طریقہ صحابہ و تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور تمام محدثین ؒ کے خلاف ہے اس فرقہ شاذہ کی راہ عمل سب سے الگ تھلگ ہے۔
سوال نمبر15
صحاح ستہ میں کوئی ایسی کتاب ہے جو صرف احادیث رسالت مآبﷺ پر مشتمل ہو اور اس میں اورکوئی بات نہ دی گئی ہو صحاح ستہ کے علاوہ اور جو کتب حدیث پہلی چار صدیوں میں لکھی گئیں ان میں کون سی ایسی کتاب لکھی گئی جو صرف احادیث رسالت مآب ﷺ پر محدود ہو تو اسکا نام لکھ دیں؟
الجواب
چوتھی صدی تک جتنے اہل سنت اوالجماعت محدثین گزرے ان میں سے کسی نے بھی صحابہ کرامؓ کی احادیث اور تابعین ؒ کے فقہی فتاویٰ کا انکار نہیں کیا ۔ اىک بھی حدیث کی کتب نہیں ملتی جس میں اجماع وقیاس کا انکار ہو بلکہ سب میں قیاسی اقوال کم وبیش ملتے ہیں۔ اىک بھی کتاب کا نام پیش نہیں کیا جا سکتا جس کی تبویب وتخریج میں قیاس کا دخل نہ ہو۔
سوال نمبر16
ضعیف احادیث اور موضوع احادیث میں کی فرق ہے؟ ضعیف حدیث اگر کسی درجے میں معتبر نہیں تو صحاح ستہ کہ مولفین نے ضعیف حدیثوں کی کیوں جگہ دی؟ آج اگر کوئی فرقہ یا شخص ان حدیثوں کو نئے سر سرے مرتب کرتا ہے اورترمذی دوحصوں میں تقسىم کر دیتا ہے صحیح ترمذی، ضعیف ترمذی، تو کیا وہ محدثین کے اس مسلک کے خلاف نہیں چلا کہ صحیح وضعیف سب اىک جگہ جمع ہونی چاہئیں تاکہ ضعیف حدیث میں تبیین اور دوسرے قرائن میں درجہ اعتبار میں آ سکتی ہىں؟
الجواب
محدثین نے احادیث کی بہت سی قسمیں بنائی ہیں ان میں سے صحیح اورموضوع دونوں ابتدا اورانتہا کے کناروں پر واقع ہیں سب سے اعلی صحیح اور سب سے بدتر موضوع ہے۔درمیان میں بہت سی اقسام ہیں۔ صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ، حسنلغیرہ، ضعیف، بضعف قریب اس حد تک کو لفظ ثبوت متناول ہے آخری قسم ہے جیسے اختلاط روای، سوئىے حفظ، تدلیس متابعات اور شواہد میں کام آتی ہے اورجابر سے قوت پا کر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ بن جاتی ہے۔ پھر احکام میں بھی حجت ہے ورنہ دربارہ فضائل و ترغیب وترہیب آپ ہی تنہا مقبول و کافی ہے۔ درج ششم میں ضعف شدید ہے کہ راوی کا فسق واضح ہو ہنوز سرحد کذب سے جدائی وہ قسم احکام میں متروک فضائل میں بعض کے نزدیک مطلقاً اور بض کے نزدیک تعدد طریق کے بعد مقبول۔درجہ ہفتم میں متہم بالکذب کے ضعیف کی اشد قسم ہے لیکن اس کو بھی موضوع ہے جس کا جھوٹا ہوناثابت ہونا مشکوک ہے تو جھوٹا ہونا بھی یقینی نہیں۔آٹھویں قسم موضوع ہے جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے۔ آج جو ىہ طریقہ ہے کہ ان کتابوں کے دو الگ الگ حصے کر دىئے ہیں ىہ نہ صرف محدثین کی غرض کو ختم کرنا ہے بلکہ سنت دشمنی کی انتہا ہوگئی ہے۔
سوال نمبر17
تاریخ اسلام میں علم فقہ پہلے مرتب ہوا یا علم حدیث؟ائمہ اربعہ پہلے ہوئے یا صحاح ستہ کے مصنفین؟ امت کو پہلے فقہ کی ضرورت پڑی یا حدیث کی ۔ جس طرح دین کا عملی نقشہ فقہ میں ملتا ہے کیا اس طرز پر حدیث کی کسی کتاب میں نماز کا عملی نقشہ موجود ہے؟
الجواب
تاریخ اسلام میں فقہ کے چاروں امام پہلے ہوئے اورمصنفین صحاح ستہ بعد میں ہوئے ان کے سنین وفات ىہ ہیں امام اعظم ابو حنیفہؒ 150ھ، امام مالک ؒ179ھ، امام شافعی 204ھ، امام احمد بن حنبلؒ241ھ ، امام بخاری ؒ256، امام مسلمؒ261، امام ابن ماجہؒ273ھ، امام ابو داودؒ275ھ، امام ترمذی ؒ279ھ، اور امام نسائی ؒ 303ھ۔ جس طرح حضرت علیؓ خلفائے ثلاثہ کے بعد ہوئے اور خلفائے ثلاثہ کو غلط قرار نہیں دیا بلکہ ان کی موافقت فرمائی اسی طرح اصحاب صحاح ستہ ائمہ اربعہ کے بعد ہوائے اور کسی کتاب میں اىک باب بھی رد حنفیت یا رد مالکیت وغیرہ پر نہیں باندھا۔ بلکہ فقہ کی تائید اوراجماع او رقیاس کی تائید کر کے فقہی مذاہب کو اور مضبوط کر دیا ۔ائمہ صحاح ستہ میں سے کی بپی محدث نے دین کو مکمل عملی نقشہ پیش نہیں کیا کىونکہ ىہ کام ائمہ اربعہ پہلے کر چکے تھے اورامت ان پر عمل کر رہی تھی۔معلوم ہوا کہ دین پر عمل کرنے کےلئے پہلی اورکامل ضرورت فقہ کی ہے اسی لئے ىہ پہلے مدون ہوئی اور محدثین نے بھی اسی کو جاری رکھا اس کی مخالفت نہیں کی۔
سوال نمبر18
صحاح ستہ کے راویوں کے حالات جو علامہ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجر ؒ کی کتابوں سے ملتے ہیں وہ ابن حجر سے لے کر ان رواة حدیث کی متصل راویت سے پہنچتے ہیں یا انہیں محض محدثین کے اعتماد پر قبول کر لیا گیا ہے ىہاں اسناد کو ضروری نہ سمجھنا اور اعتماد پر عمل کرنا ىہ کس حدیث کی رو سے جائز قرار دیا گیا ہے اس کا حوالہ درکا رہے؟
الجواب
گرشتہ جواب میں آپ نے معلوم کرلیا کہ اصحاب ستہ میں آخر میں امام نسائی نے 303ھ میں وصال فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ صحاح ستہ کے راوی پہلی تین صدیوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ علامہ ذہبی ؒ کا وصال484ھ میں اور حافظ ابن حجرؒ852ھ میں ہواہے گویا دونوں حضرات اوران راویوں کے درمیان چھ سات سو سال کا زمانہ ہے جس کی کوئی سند ان کی کتابوں میں نہیں ہے ان لوگوں نے بلا اسناد محض محدثین کے اعتماد کتابیں مرتب فرمائیں ہیں۔ ىہ کسی حدیث میں نہیں آیا کہ اگر اىک تابعی حضرت رسول پاک ﷺ کے وصال کے دوسرے دن بھی ایمان لے آیا تو اس کی حدیث کو مرسل کہہ کر رد کر دینا اور علامہ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ راوی کے سات سو سال بعد بھی بغیر سند کے اس کو ثقہ یا ضعیف کہے تو اس پر ایمان لے آنا۔
سوال نمبر19
کیا فروعی مسائل پر جماعت بندی کرناجائز ہے یا نہیں؟ صحابہؓ میں رفع یدین کرنے والوں اور نہ کرنے والوں اور آمین وغیرہ جىسے مسائل پر کوئی جماعت بندی تھی؟ اگر نہیں تو ان مسائل پر تنظیمیں بنانا اور جماعت بندی کرنا کیا بدعت نہیں؟
الجواب
صحابہ ؓ اور تابعین ؒ میں فروعی مسائل پر کوئی جماعت بندی نہیں تھی، اس لئے اس کے بدعت ہونے میں ہرگز شک نہیں۔
سوال نمبر20
دنیا میں کہیں حنفیوں، مالکیوں، شافعیوں اور حنبلیوں کی فقہی اختلاف پر مبنی تنظیمیں ہىں اگر نہیں تو غیر مقلدوں کی ىہ اہلحدیث تنظیم کیوں قائم کی گئی ہے ىہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ گروہ ان فروعی مسائل کو اصول قرار دتیا ہے اور فروعات پرفرقہ بندی کو جائز سمجھتا ہے؟
الجواب
مقلدین مذاہب اربعہ کی ایسی تنظیمیں موجو دنہیں ہیں ىہ بدعت صرف نام نہاد اہلحدیثوں نے شروع کی ہے اورا سکی وجہ ىہی ہے کہ ىہ لوگ محض جہالت اور ضد کی وجہ سے فروعی مسائل کو بھی اصولی مسائل سمجھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment