سوال: تحقیق فی الحدیث اصل یا تقلید فی الحدیث؟
جواب: جس طرح تحقیق فی القران اصل ہے نہ کہ تقلید فی القرآن بالکل اس طرح تحقیق فی الحدیث اصل ہے نہ کہ تقلید فی الحدیث،کیونکہ کےلئے سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اصل اور تقلید فی الفقہ اصل میں سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقلید کا نام ہے اور يہ اصل ہے نہ کہ تحقیق فی الفقہ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں کسی بھی چیز پر عمل کرنے کے لحاظ سے سنت ايک جبکہ احادیث ايک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں اور ايک سے زیادہ ہونے کی صورت میں تحقیق کی ضرورت پیش آئے گی اور يہ تحقیق قران کریم میں بھی کرنی ہوگی کیونکہ واقعات متعدہ جگہ متفرق انداز میں ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔
تحقیق فی القرآن
(1) حضرت آدم اور ابلیس کا واقعہ متعدد جگہ مزکور ہے اور ہر جگہ مختلف انداز سے مختلف واقعات مذکور ہیں ايک جگہ اﷲ فرماتے ہیں ( واذ قلنا للملئکة اسجدو لادم فسجدو الا ابلیس) اور جب ہم نے کا فرشتوں سے کہ آدم کو سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ اس کا نتیجہ يہ ہوا کہ بعض مفسرین و محققین اس کو فرشتہ سمجھنے لگے جبکہ قرانی آیات جو اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ديکھیں تو اﷲ خود فرماتے ہیں (کان من الجن ففسق عن امر ربه) یعنی ابلیس جن تھا پھر اﷲ کے حکم کی نافرمانی کر گیا حالانکہ اس کو نہیں کرنی چاہيے تھی اس کو اﷲ نے اپنی اطاعت کےلئے پیدا کیا تھا۔
(2)بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم کے والد آزر کوان کا والد ہونے سے انکار کر دیا ہے اورفرماتے ہیں کہ آزر چچا تھے۔عربی زبان میں اب ”چچا، دادا کےلئے بھی بولا جاتا ہے اور يہ دھوکا کئی غیر مقلدین مثلاً ابراہیم میر اور ثناء اﷲ امرتسری کو بھی ہوا۔
جبکہ پورے واقعہ کی آیات کو سامنے رکھنے سے صحیح پتہ چلتا ہے ايک جگہ آپ کا والد کہتا ہے اخرج یہاں سے نکل جا حضرت ابراہیم فرماتے ہیں
(قال سلام علیک ساست غفرلک ربی انه کان بی حفیا) میری طرف سے آپ کو سلام ہو میں اﷲ سے آپ کےلئے استغفار کیا کروں گا ايک اور مقام پرفرمایا ( رب اغفرلی ولوالدی) اے اﷲ مجھے اور میرے والدین کو معاف فرما والدین مان،چچا یا ماں دادا مل کر نہیں بلکہ اور باپ سے مل کر بنتے ہیں لھذا معلوم ہوا کہ اس واقعہ کی تمام آیات کوملانے سے ہی حقائق کا پتہ چل سکے گا۔
تحقیق فی الحدیث
(کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم یرفع یدیه کلما کبر و رفع۔بخاری )
یعنی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے معلوم ہوا کہ حدیث بخاری کی رو سے ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے مگر سوال يہ ہے کہ امت میں اب ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کیوں نہیں کیا جاتا تو جواب ہوگا کہ کسی حدیث سے منسوخ ہوئی ہو گی تو دوسری حدیث سے پتہ چلے گا اور اگر نہیں منسوخ ہوئی تو وہ بھی کسی حدیث سے پتہ چلے گا کہ منسوخ نہیں ہوئی۔مزید يہ کہ حدیث میں تحقیق کرنا ہوگی بغیر تحقیق کوئی حدیث قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ہم ديکھتے ہیں رفع یدین کے بارہ میں کوئی قولی حدیث منقول نہیں اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ بڑے بڑے صحابہؓ میں سے بھی کوئی حدیث منقول نہیں۔ حضرت عبد اﷲبن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کان یرفع یدیهحضورصلی اﷲ علیہ وسلم رفع یدین کیا کرتے تھے ماضی کا صیغہ ہے جو زمانہ گذشتہ کے بارہ میں وضاحت کرتا ہے۔ اصول حدیث کی رو سے اسے اثر صحابی رضی اﷲعنہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
صحابہ رضی اﷲ عنہ جو فقہی مقام حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲعنہ کا حاصل ہے وہ کسی اور کا نہیں آپ کا نمبر اسلان لانے والوں میں چھٹا ہے اورآپ علم قرآن کا سمندر تھے قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے کہ جس کے قبضہ میں قدرت میں میری جان ہے قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس شان نزول مجھے معلوم نہ ہو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کےلئے دعا فرماتے ہیں جو فیصلہ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کرے تو بھی اسی طرح کر دے ايک دن عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
( الا اصلی بکم صلوة رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم فصلی فلم یرفع یدیه الافی اول مرة)
یعنی آپ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم والی نماز پڑھائی اور رفع یدین صرف پہلی بار کیا۔
(2) اسی طرح حدیث میں ہے کہ کاغذ پر لکھنے سے دو صحابہ رضی اﷲ عنہ نے انکار کیا ايک حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جن کے بارہ میں مشہور واقعہ قرطاس ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کاغذ اور قلم لاؤ تمہارے لئے کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ مگر قران کے نزول کے مکمل ہو جانے کے بعد اور ہدایت یافتہ لوگوں کے ہوتے ہوئے حضرت عمر رضی اﷲ نے مزید کسی فرمان کی ضرورت نہ سمجھتے ہوئے اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیماری اور تکلیف کا خیال کرتے ہوئے نہ لکھوایا آج اس فرمان کو بعض جاہل معاذ اﷲ کفر کہتے ہیں مگر صلی حدیبیہ میں جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے من محمد الرسول اﷲ کفار کے کہنے پر کاٹنے سے انکار کر دیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی ؓ مٹادو مگر علی رضی اﷲعنہ نے انکار دکی دیا نبی کے فرمان کا انکار تو کفر کے مترداف تھا مگر چونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا مدعا يہ تھا میں مان چکاہوں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ ماننے کے بعد اب مٹا نہیں سکتا اور يہ بات تحقیق سے معلوم ہوگی۔تحقیق جواب دے گی کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کو تعمیل حکم میں انکار کیوں کیا پتہ چلے گا کہ انکار نہیں اقرار تھا۔
امام بخاری : نبی نہ تھے اور نہ ہم ہم بخاری پرست ہیں البتہ ہم بخاری خواں ہیں امام بخاری رحمہ اﷲ کو وحی نہیں آتی تھی اور نہ امام بخاری رحمہ اﷲ نے اخذ، حدیث کا کوئی اصول لکھا ہے۔
جبکہ امام مسلم: نے فرمایا کہ میں نے صرف وہ احادیث لی ہیں جن پر امت کا اجماع ہے
امام ترمذی: وہ دحدیث اپنی کتاب میں نقل فرماتے ہیں جو معمول بھا ہے ۔
امام ابوداؤد: وہ حدیث نقل فرماتے ہیں جو ائمہ اربعہ کے معمول بھا ہے۔
امام بخاری رحمہ اﷲ نے کونسی حدیث کس اصول کے مطابق لی ہے يہ انہوں نے نہیں لکھا۔ امام بخاری رحمہ اﷲ کا مقام حدیث میں بہت بلند ہے تا ہم وہ معصوم عن الخطاء ہستی نہیں ہیں بخاری کی روایات میں ان سے متعدد جگہ چوک ہو گئی ہے۔ مثلاً
لا صلوة الا بفاتحة الکتاب
صرف اتنے الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو کسی بھی دوسرے محدث نے نقل نہیں کیا سوائے امام بخاری کے، اور يہ حدیث نامکمل ہے بخاری پرست اس ہر جگہ صحفیہ آسمانی سمجھ کر ہر جگہ سورة فاتحہ کی تائید کرديتے ہیں۔ وہ جنازہ ہو یا امام کے ساتھ پڑھی گئی نماز ہو۔
فقہ کا مفہوم اصل میں زمین کو گہرا کھود کر پانی نکالنا ہے اور وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ صلی اﷲعلیہ وسلم پر تحقیق کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے قرآن کی اندھی تقلید سے منع کیا ہے۔
واذا ذکرو بابات ربهم لم یخرو علیها صما وعمیانا
اور جب پڑھی جاتی ہے ان پر آیات ہماری نہیں ہو جاتے وہ ان پر بہرے اور اندھے
احادیث نبویہ میں کے بارہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
من یرد اﷲ به خیرا یفقه فی الدین
جس کے ساتھ اﷲبھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔
No comments:
Post a Comment