AHLE-HADEES YA AHLUL RAYE ??


اہلحدیث یا اہل الرائے:
دعوا اور دعوت "الله اور رسول ہی کی مانو" مگرآپ مجھے صرف ایک حدیث ایسی لکھوائیں جس کو اللہ یا رسولﷺ نے صحیح فرمایا ہو اور ایک حدیث ایسی جس کو اللہ یا رسولﷺ نے ضعیف یا من گھڑت فرمایا ہو۔ قیامت تک ایک حدیث بھی نہیں لاسکتے جس کو اللہ یا رسولﷺ نے صحیح یا ضعیف کہا ہو۔ میں پوچھتا ہوں کہ پھر تم کسی حدیث کو صحیح ، کسی کو حسن، کسی کو ضعیف، کسی کو من گھڑت کس دلیل سے کہتے ہو؟ یقیناً اپنی رائے یا کسی امتی محدث کی رائے سے احادیث کو صحیح و ضعیف وغیرہ کہتے ہو۔ تو پھر جناب اہل الرائے یا اہل الرائے کے مقلد ہوئے، اہل حدیث تو نہ ہوئے۔

حدیث کے صحیح و ضعیف ہونے کا فیصلہ کرنا بھی امر اجتہادی ہے:

 
محدثین رحمہم اﷲ عموماً سندوں کو دیکھ کر اس پر صحیح و ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں، فقہائے کرام سندوں سے زیادہ درایت کوکام میں لاتے ہیں، اور زیادہ تر اسی بات کو حدیث کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد بناتے ہیں۔مثلاً امام دار قتنی رحمة اﷲ علیہ نے یہ حدیث روایت کی ہے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضورﷺ کے ساتھ رمضان میں عمرہ کیا تو آپ نے تو روزہ نہیں رکھا اور میں نے روزہ رکھا، اور آپ ﷺ نے نماز قصرا ادا کی اور میں نے پوری نماز پڑھی قصر ادا نہیں کی۔اس حدیث کے بارے میں امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اسنادہ حسن یعنی اس کی سند حسن ہے گویا سند کے اعتبار سے یہ حدیث محدث امام دارقطنی کے نزدیک قابل قبول ہے۔مگر اس حدیث میں جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے غور کیا تو اس کے باطل ہونے کا فیصلہ فرمایا۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے آنحضورﷺکے ساتھ رمضان کے مہینہ میں عمرہ کیا جب کہ رمضان کے زمانہ میں آنحضورﷺ کا عمر کرنا ثابت نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کو متعدد وجوہ سے باطل قرار دیا۔دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:لثانی ان فی الحدیث، انھا خرجت معتمرة معہ فی رمضان عمرة رمضان وکانت صائمة وھذا کذب باتفاق اھل العلم فان النبیﷺ لم یعتمر فی رمضان قط وانما کانت عمرتہ فی شوالواذا کان لم یعتمر فی رمضان ولم یکن فی عمرة علیہ صوم بطل ھذا الحدیث (فتاویٰ ص ۰ ۸ج ۲۲)یعنی حدیث کے صحیح نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے رمضان میں آپﷺ کے ساتھ رمضان کا عمرہ کیا اور وہ روزہ سے تھیں، اور یہ بات اہل علم کے متفقہ فیصلہ کے مطابق جھوٹ ہے اس لئے کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان میں کبھی عمرہ کیا ہی نہیں، آپ کا عمرہ شوال میں ہوا کرتا تھا، اور جب رمضان میں آپ ﷺ سے عمرہ کرنا ثابت نہیں اور عمرہ میں آپ پر روزہ فرض ہی نہیں تھا تو یہ حدیث باطل ہے۔آپ نے غور فرمایا کہ امام دارقطنی جس حدیث کو سند کی بنیاد پر ثابت مان رہے ہیں اس حدیث کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ باطل اور جھوٹ بتلا رہے ہیں، اسی لئے اہل اصول کا یہ فیصلہ ہے کہ سند کے صحیح ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا، اور نہ سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا ضروری ہے۔ہمارے نزدیک اس بارے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ خیر القرون کے فقہاءجو صرف فقیہ نہیں تھے بلکہ حدیث میں بھی بابصیرت تھے ان کا فیصلہ حدیث کے صحیح وضعیف ہونے کے بارے میں زیادہ موجہ اور قابل قبول ہے، اگر فقہائے کرام اور خصوصا ائمہ اربعہ کا عمل کسی حدیث پر ہے تو اس کا صحیح ہونا اغلب ہے خواہ اس کی سند ضعیف ہو یا صحیح ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:فمن تکلم بجھل وبما یخالف الائمة فانہ ینھی عن ذلک (فتاویٰ ۲۲ص ۷۲۲) یعنی جو بلا علم جہالت سے گفتگو کرے یا ایسی بات کرے جو ائمہ کے اقوال کے مخالف ہو تو اس کو اس سے روکا جائے۔اس سے معلوم ہوا کہ فقہائے کرام کے اقوال عموما صحیح حدیث کی روشنی میں ہوا کرتے تھے نیز وہ شریعت کے منشاءہوتے تھے۔اسی طرح اگر زمانہ خیر القرون میں کسی حدیث پر عمومی انداز سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے تو وہ حدیث بھی قابل قبول ہے سند کے صحت وضعف پر نگاہ نہیں کی جائے گی، کسی حدیث کے صحیح ہونے کی سب سے قوی دلیل سلف کا تعامل ہے، مثلا بیس رکعت تراویح کی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے مگر زمانہ خیر القرون میں نیز بعد کے ادوار میں بھی زیادہ تر مسلمانوں کا عمل بیس رکعت تراویح پڑھنے کا رہا ہے، اس وجہ سے سند کے ضعف کے باوجود تعامل سلف کی وجہ سے بیس رکعت ہی تراویح پڑھنا موجہ قرار پائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سی احادیث سندا ضعیف ہیں مگر امام ترمذی وغیرہ تصریح فرماتے ہیں وعلیہ عمل اھل العلم یعنی سندا حدیث کے ضعیف ہونے کے باوجود اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔کبھی ایک مسئلہ میں متعدد مختلف المعنی حدیثیں ہوتی ہیں،اور ان میں سے کسی ایک کو کوئی فقیہ قبول کرتا ہے اور دوسری پر اس کا عمل نہیں ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسری حدیث اس کے نزدیک غیر ثابت ہے، بلکہ ایک کو راحج اور دوسرے کو مرجوح قرار دینے کی بنیاد دوسری چیزیں ہوتی ہیں جن کی تفصیل کتابوں میں مزکور ہے۔احناف کا طریقہ استدلال:جس حدیث کو چاروں آئمہ مجتہدین رحیمہ اللہ نے قبول کر لیا اور سب کا اس پر متواتر عمل ہے ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اللہ اور رسولﷺ نے نہ صحیح فرمایا ہے اور نہ ضعیف۔ ہاں امت کے اجماع کی وجہ سے اس کی صحت میں شک نہیں اور جن مسائل کی احادیث میں اختلاف ہے ان میں سے جس پہلو کی احادیث پر مجتہد اعظمؒ نے عمل فرماےا اور احناف کا اس پر متواتر عمل ہے اس کو ہم صحیح مانتے ہیں کیونکہ ہمارے امام صاحبؒ نے فرمایا ہے کہ میرا مذہب صحیح حدیث پر ہے اور مجتہد کا کسی حدیث کے موافق عمل کرلینا اس مجتہد اور اس کے مقلدین کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مثلاً اس حدیث کو اللہ و رسولﷺ نے نہ صحیح فرمایا ہے اور نہ ضعیف۔ اور جہاں اللہ و رسولﷺ سے رہنمائی نہ ملے وہاں اللہ و رسولﷺ نے مجتہد کو اجتہاد کا حق دیا ہے۔ ہمارے امام صاحبؒ نے اپنے اعتبار سے اس حدیث میں مذکور مسئلہ کو قبول فرمایا۔ اب اگر ان کا اجتہاد صواب ہے تو ان کو دو اجر ملے اور اگر خطا ہے تو ایک اجر ملا اور عمل یقیناً اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ ہمارے امام کے اس اجتہاد کے خلاف اگر کوئی شخص اللہ و رسولﷺ سے صراحتاً ثابت کردے کہ جس حدیث کو امام نے اپنے اجتہاد سے صحیح مان لیا ہے۔ اللہ یا رسولﷺ نے اس حدیث کو من گھڑت فرمایا ہے تو ہم اپنے امام کا اجتہاد چھوڑ کر اللہ و رسولﷺ کی بات مان لیں گے لیکن ہمارے خیرالقرون کے مجتہد اعظمؒ نے جس کو قبول فرمالیا مابعد خیرالقرون کے کسی بھی امتی کی رائے سے ہم اپنے امام کے اجتہاد کو ترک نہیں کریں گے۔ ہمارا احادیث کے رد و قبول کے بارہ میں یہ طریق کسی قرآنی آیت یا حدیث کے خلاف ہو تو سنائیں ہم تہ دل سے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔ رہا جناب کا یہ فرمان کہ ہم اپنی رائےیا کسی دوسرے غیر مجتہد امتی کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہتے ہیں تو اس سے پتہ چلا کہ آپ کا یہ عمل کسی دلیل پر مبنی نہیں۔ کیونکہ آپ کے نزدیک تو صرف خدا اور رسولﷺ کی بات دلیل ہے اور آپ یقیناً نہ خدا ہیں اور نہ رسول، نہ ہی آپ کا غیر مجتہد امتی خدا ہے نہ رسول، تو آپ کو نہ تو کسی حدیث کو صحیح کہنا چاہئے نہ ضعیف اور ہم اہل سنت و الجماعت کے ہاں بھی آپ کا یہ عمل کسی دلیل پر مبنی نہیں کیونکہ آپ نہ اجماع ہیں اور نہ ہی آپ میں مجتہد کی شرائط ہیں تو آپ جس بات کو اپنی تحقیق کہتے ہیں وہ کسی دلیل پر مبنی نہیں کیونکہ نہ ہم آپ کو خدا مانتے ہیں، نہ رسول، نہ اجماع اور نہ مجتہد۔ آپ خود ہی فرما دیں آپ جو ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہماری تحقیق مانو تو آپ اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں ےا رسول؟ آپ زبان سے صاف تو نہیں کہتے کہ ہم خدا ہیں یا رسول ہیں لیکن جب اجماع اور مجتہد کے مقابلے میں ہم آپ کی تحقیق نہ مانیں تو آپ کی طرف سے شور یہی مچتا ہے کہ انہوں نے خدا اور رسولﷺ کی بات نہیں مانی۔ اب آپ ہی سوچیں کہ آپ کا یہ شور کس قدر خطرناک ہے۔
========================================
ہم نہیں مانتے!!!
 
غیر مقلدین کے معتبر ترین علماءکے یہ مسائل جب غیر مقلدین کے سامنے بیان کئے جاتے ہیں تو لا جواب ہو کر ان کا رنگ زرد پڑجاتا ہے ۔ جب کوئی جواب ان سے نہیں بن پڑتا تو چار ونا چار یہ کہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ”ہم ان علاماء، ان کتابوں اور ان مسائل کو نہیں مانتے ۔ ہم تو صرف قرآن وحدیث کو مانتے ہیں
ہم غیر مقلدین سے پوچھتے ہیں:
٭۔۔۔کیا یہ علماءخود کو اہل حدیث نہیں کہتے تھے اور کیا انہوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم قرآن وحدیث کے مسائل لکھ رہے ہیں؟
٭۔۔۔ جب آپ قرآن وحدیث ہی کو مانتے ہیں تو پھر آپ کے علماءکتابیں کیوں لکھتے ہیں ؟ کیا قرآن وحدیث کو ماننے کے لیے ترجمے والا قرآن اور احادیث کی مترجم کتابیں کافی نہیں؟
٭۔۔۔آپ ان علماءکی بات نہیں مانتے تو یہ علماءآپ کی بات نہیں مانتے۔کیا وجہ ہے کہ ایک غیر مقلد عالم فتویٰ دیتا ہے دوسرا کہتا ہے میں نہیں مانتا ۔ ایک غیر مقلد عالم کتاب لکھتا ہے تو دوسرا عالم اسے نہیں مانتا ۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہر غیر مقلد اپنے نفس کی مان رہا ہوتا ہے اور نام قرآن وحدیث لیتا ہے ۔
٭۔۔۔ کیا غیر مقلدین کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی فرقہ گزرا ہے جس کے اکابر گمراہ اور اصاغر (چھوٹے) راہ راست پر ہوں۔
٭۔۔۔ اگر آپ ان علماءکو نہیں مانتے تو ہمارا آپ سے مطالبہ ہے کہ لگائیے ان علماءپر کفر کا فتویٰ۔کیا کفر ، شرک اور گمراہی کے فتوے آپ لوگوں نے علمائے دیوبند ہی کے لیے سنبھال کر رکھے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ آج تک آپ لوگوں نے متفقہ طور پر ان پر کفر اور شرک اور گمراہی کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا۔ اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی اشتہار ، پمفلٹ یا کوئی کتابچہ تقسیم کیا ۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ
ان علماءکو مانتے ہیں۔
ان مسائل کو مانتے ہیں ۔
ان کتابوں کو مانتے ہیں ۔
لیکن
اعتراف نہیں کرتے۔
مسئلہ فاتحہ خلف الامام
غیر مقلدین نے ہتھیار ڈال دئیے
بغیر فاتحہ کے مقتدی کی نماز ہو جاتی ہے ارشاد الحق اثری کا فرمان
بزرگ غیر مقلد عالم ارشاد الحق اثری فاتحہ خلف الامام پر اپنی تحقیقی کتاب ”توضیح الکلام “ میں لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ سے لے کر دورِ قریب کے محققین اہل حدیث تک کسی کی تصنیف میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز باطل ہے اور وہ بے نماز ہے۔آج بعض حضرات نے جو قدم اُٹھایا ہے ، جماعت کے نامور اور ذمہ دار حضرات میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔” (توضیح الکلام ج۱۔ ص۳۴)
آگے اثری صاحب لکھتے ہیں:
جو یہ سمجھے کہ فاتحہ خلف الامام فرض نہیں ، نماز خواہ جہری ہو یا سری اور اپنی تحقیق پر عمل کر لے (یعنی فاتحہ نہ پڑھے ) تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی ”۔ (توضیح الکلام ج۱ص۵۴)
اس سے ظاہر ہوا کہ فاتحہ کے بغیر مقتدی کی نماز ہو جاتی ہے اور جو غیر مقلد علماءبغیر فاتحہ کے نماز کو باطل کہتے ہیں وہ غیر ذمہ دار لوگ ہیں۔
سجدوں میں رفع یدین
غیر مقلدین کے لیے سو شہیدوں کا ثواب
حضراتِ غیر مقلدین کی مستند ، مرکزی اور مسلمہ کتاب ” فتاویٰ علمائے حدیث ” میں ہے:
سجدوں میں رفع یدین منسوخ نہیں ۔ یہ نبی ﷺ کی آخری عمر کا فعل ہے اور اس سنت کو ذندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا”۔(ملخصاً۔ فتاویٰ علمائے حدیث ۔ ج۴۔ ۷۰۳،۶۰۳)
کیا سعودی عرب والے غیر مقلد ہیں ؟۔۔۔نہیں !!!
سعودی عرب والے امام احمد بن حنبل ؒ کے مقلد ہیں بلخصوص حرمین شریفین کے آئمہ کے حنبلی ہونے میں تو کوئی شک نہیں ۔ محمد بن عبدالوہاب ؒ کے صاحب زادہ امام عبداللہ بن عبدالوہابؒ فرماتے ہیں: “ہم فروعی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل ؒکے طریقے پر ہیں ، چونکہ ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ ، اور امام احمد ابن حنبلؒ کا طریقہ منضبط ہے اس لیے ہم ان کے کسی مقلد پر انکار نہیں کرتے ۔۔۔۔ ہم لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ چاروں ائمہ میں سے کسی ایک ہی کی تقلید کریں” (تحفہ وہابیہ ترجمہ الدیة السنیہ ص۶۱)
دیکھیے سعودی عرب کے امام تو لوگوں کو ائمہ کی تقلید پر مجبور کر رہے ہیں۔ غیر مقلدین انہیں مشرک اس لیے نہیں کہتے کہ پیٹ پر لات پڑتی ہے۔
غیر مقلدین بتائیں :
۱) حرمین شریفین میں تراویح بیس رکعات ہوتی ہے۔ آپ آٹھ پڑھ کر کیوں بھاگ جاتے ہیں اور بیس تراویح کو بدعت کیوں کہتے ہیں؟ (رفع اختلاف از مولوی عثمان دہلوی غیر مقلد ص ۴۵)
۲) حرمین شریفین میں نماز ِ جنازہ ہمیشہ آہستہ پڑھا ئی جاتی ہے۔ آپ یہاں بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں؟
۳) سعودی عرب میں ”مجلس ہیئت کبار العلماء“ کے فیصلے کے مطابق تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں ۔ آپ ایک کیوں کہتے ہیں؟
۴) حرمین شریفین میں نماز جمعہ میں دو اذانیں ہوتی ہیں جبکہ آپ دوسری اذان کوبدعت کہتے ہیں۔ (فتاویٰ ثنائیہ۔ ج۱ ۔ ص۵۳۴)
۵) سعودیہ والے کہتے ہیں کہ مقتدی کی نماز بغیر فاتحہ پڑھے ہو جاتی ہے ۔ (معنی ابن قدامہ ۔ ج۱۔ ص۶۰۱)
جبکہ آپ کہتے ہیں کہ بغیر فاتحہ کے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ۔

No comments:

Post a Comment